اتوار، 1 ستمبر، 2013

حیرت انگیز ایجادات

Posted at  12:55 AM  |  in  





دنیا میں نت نئی ایجادات کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ہر نئی ایجاد انسان کو حیرت میں مبتلا کردیتی ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس کی تیز رفتار ترقی نے انسان کوبہت آگے کا سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
اگر ایک صدی پہلے کے انسان سے میلوں دور بیٹھے دوسرے شخص سے بات کرنے کے خیال کا ذکر بھی کیا جاتا یا اگر آپ ایک خط کو منٹوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک بھیجنے کا خیال بھی پیش کرتے تو یقیناً آپ کو پاگل قرار دے دیا جاتا۔ ہوائی جہاز، موبائل ٹیلی فون، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای میل اور دیگر بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ ایک صدی پہلے ان کے بارے میں سوچنا بھی پاگل پن کی علامات سمجھا جاتا۔
اوراگر آج کے دور میں کہا جائے کہ آپ کو بازار سے جوتے، چپل یا ٹوتھ برش خریدنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے آپ خود اپنے گھر میں پرنٹ کرسکتے ہیں یا آپ کو کسی بھی لفظ کے ہجے یاد کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ آپ کا قلم خود آپ کی تحریر اور ہجے ٹھیک کرے گا، تو یہ بات آپ کے لیے حیرت انگیز ہوگی۔ لیکن سائنس کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے اس کو بھی ممکن بنادیا ہے۔ اب ہم بات کرتے ہیں ’’تھری ڈی پرنٹر‘‘ اور ’’غلط ہجے پر سرزنش کرنے والے قلم کی‘‘
تھری ڈی پرنٹر:
1983میں جب لوگوں میں سی ڈیز اور کیم کوڈر متعارف کرائے جا رہے تھے، اسی وقت تھری ڈی سسٹم کارپوریشن کے چارلس ڈبلیو چک ہلز نے دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹر ایجاد کیا تھا، اس پرنٹر میں اسٹیریو لیتھو گرافی تیکنیک استعمال کی گئی تھی۔ اس پرنٹر سے کسی بھی ٹھوس شے کو پرنٹ کرنے میں وقت کے ساتھ ساتھ کافی سرمایہ بھی درکار تھا۔ اس وقت چک ہلز کی ایجاد کو بڑے پیمانے پر شہرت اس لیے نہیں مل سکی کہ عوام کی توجہ سی ڈیز اور کیم کوڈر جیسی تفریحی ایجادات پر تھی، جو ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر رہی تھی۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چک ہلز نے اپنے پرنٹر میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں اور ان کا ’’تھری ڈی پرنٹر‘‘ صنعتی اداروں میں متعارف ہوتا چلا گیا، لیکن اس کی قیمت اب بھی عام لوگوں کی پہنچ سے دور تھی، جب کہ سائنس دانوں نے ایسا تھری ڈی پرنٹر بنانے کی تگ و دو شروع کردی جو کم قیمت کے ساتھ ساتھ کم خرچ اور تیز رفتار ہو۔ رواں ماہ برطانوی کمپنی نے جدید تھری ڈی پرنٹر متعارف کرادیا ہے جو مخصوص دکانوں پر دست یاب ہے۔ 700 پائونڈ مالیت کے اس پرنٹر کو المونیم کے فریم میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ K8200پرنٹر کے ساتھ ڈیزائننگ سافٹ ویئر، پرنٹ کرنے کے لیے پانچ میٹر پولی لیکٹک ایسڈ (مکئی کے دانوں سے بننے والا پلاسٹک جیسا مادہ) تار بھی فراہم کیا گیا ہے۔




تھری ڈی پرنٹر کس طرح کام کرتا ہے؟
سب سے پہلے کمپیوٹر پر ڈیجیٹل سافٹ پر مطلوبہ تھری ڈی ڈیزائن تخلیق کیا جاتا ہے۔
اس ڈیزائن کو کمپیوٹر سے تھری ڈی پرنٹر میں منتقل کیا جاتا ہے، جو پلاسٹک کو پگھلا کر اس ڈیزائن کی تہیں (لیئرز) جمانا شروع کر دیتا ہے۔
کسی بھی تھری ڈی آبجیکٹ کی پرنٹنگ کا وقت ڈیزائن کے سائز اور اس کی پیچیدگی پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر ایک موبائل فون کیس پرنٹ کرنے میں تقریباً تیس منٹ لگتے ہیں۔
تھری ڈی پرنٹر سے کیا کیا پرنٹ ہوسکتا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے یہ ٹیکنالوجی نہ صرف تعمیرات، صنعتی ڈیزائن، آٹو موبائل، ایرو اسپیس، فوجی، انجینئرنگ، دانتوں اور طب سے وابستہ صنعتوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے، بلکہ اسے فیشن، جیولری، فٹ ویئر، آئی ویئر، تعلیم، غذا اور جغرافیائی انفارمیشن سسٹم میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تھری ڈی پرنٹر سے آپ اپنے موبائل فون کے کَور سے لے کر گھر کی دیواریں تک پرنٹ کر سکتے ہیں۔



ماہرین کے مطابق پلاسٹک تو اس میں عام انک ہے لیکن انک کے طور پر سرامک، دھات، مٹی، شکر اور چاکلیٹ بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، اگر آپ کسی کو ویلنٹائن پر چاکلیٹ سے بنا ’’دل‘‘ دینا چاہتے ہیں تو آپ چاکلیٹ انک استعمال کرلیں۔ اگر آپ چاندی سے بنا دل دینا چاہتے ہیں تو آپ چاندی بطور انک استعمال کرلیں۔
اگر آپ کا ٹوتھ برش خراب ہوگیا ہے تو باہر جانے یا کسی کا انتظار کرنے سے اچھا ہے کہ آپ صرف اپنے کمپیوٹر میں ڈیزائن کریں اور ٹوتھ برش پرنٹ کرلیں۔
خواتین کے لیے مطلوبہ ڈیزائن کی سینڈل یا جوتا تلاش کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے، کیوں کہ کبھی رنگ تو کبھی سائز آڑے آجاتا ہے، تھری ڈی پرنٹر نے آپ کی یہ مشکل بھی آسان کردی ہے۔ اپنی یا اپنی اہلیہ کی پسند کی سینڈل یا جوتا ڈیزائن کریں اور پرنٹ کرلیں۔
ایمسٹرڈیم کی ایک آرکیٹیکچر کمپنی DUSنے20فٹ اونچا تھری ڈی پرنٹر ’’کیمر میکر‘‘ بنایا ہے، جو ری سائیکل پلاسٹک سے گھر کے مختلف حصے دیواریں، کھڑکیاں وغیرہ پرنٹ کرتا ہے بعد میں ان ٹکڑوں کو جوڑ کر گھر بنایا جاسکتا ہے۔
اس حوالے سے DUSکے ترجمان کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آخر تک ہم تھری ڈی گھر فروخت کے لیے مارکیٹ میں پیش کر دیں گے اور پائے داری میں یہ عام گھر جیسے ہی ہوں گے۔


دوسری جانب یورپین اسپیس ایجنسی چاند کی مٹی سے تھری ڈی بلاک بنا کر اپنا خلائی اسٹیشن بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
تھری ڈی پرنٹنگ مینو فیکچرنگ انڈسٹری میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ کا 95 فی صد استعمال صنعتی، جب کہ 5 فی صد استعمال گھریلو صارفین کر رہے ہیں۔
ہوابازی کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ 2050 تک تھری ڈی پرنٹر سے پرنٹ کیے گئے ہوائی جہاز ہوا میں اڑتے دکھائی دیں گے۔
تھری ڈی پرنٹر کو بطور ’’بائیوپرنٹر‘‘ طبی مقاصد میں محدود استعمال کیا جارہا ہے۔ فی الحال اس سے جِلد کے عام ٹشوز اور کارٹیلیج بنائے جا رہے ہیں۔ اس طریقے میں زندہ خلیات کے مرکب سے بنی ’’بائیو انک‘‘ سے پہلے خلیات کی تہ پرنٹ کی جاتی ہے، پھر اس پر ’’ہائیڈروجل‘‘ کی تہ چڑھائی جاتی ہے اور آخر تک یہ طریقہ دہرایا جاتا ہے۔
ٹشوز کے مکمل پرنٹ ہونے کے بعد ہائیڈروجل کو صاف کردیا جاتا ہے، اور یہ مکمل طور پر انسانی خلیات سے بنا ہوا ٹشو بن جاتا ہے۔ بعدازاں اسے بائیو ری ایکٹر میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں یہ ٹشو قدرتی طور پر بڑھتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم جلد ہی دل، جگر، گردے اور پھیپھڑے جیسے انسانی اعضا بھی پرنٹ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
ہجے چیک کرنے والا قلم:
کسی بھی لفظ کے ہجے یاد کرنا خصوصاً انگریزی زبان کے ہجے یاد کرنا بہت مشکل کام ہے اور بعض اوقات غلط ہجے یا غلط رسم الخط باعث شرمندگی بھی بن جاتا ہے، لیکن اب جرمنی کی ایک کمپنی نے ایسا ’’ڈیجیٹل پین‘‘ ایجاد کرلیا ہے جس میں روشنائی (انک) کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا کمپیوٹر بھی لگایا گیا ہے، جو لکھنے والے کو اس کی غلط ہجے اور تحریر سے آگاہ کرتا ہے۔
لرن اسٹفٹ (سکھانے والا پین) پین کو کمپنی کے دو ماہرین ڈینئیل کائس میشر اور فالک وولسکی نے ایجاد کیا ہے۔ اس حوالے سیان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر اس پین کے دو فنکشن ہیں





کیلی گرافی (خطاطی) موڈ
آرتھو گرافی (املا اور ہجے کا علم) موڈ
کیلی گرافی موڈ میں یہ پین انفرادی حرف جب کہ آرتھو گرافی موڈ میں غلط ہجے لکھنے پر ارتعاش (وائبریشن) پیدا کرتا ہے۔
اس پین میں موجود لینکس کمپیوٹر اور وائبریشن ماڈیول AAA بیٹری سے چلتا ہے، جب کہ پین کی نوک پر ایک نان آپٹیکل موشن سینسر لگایا گیا ہے جو الفاظ اور حرف کی شکل اور مخصوص حرکت کو شناخت کرتا ہے۔


یہ موشن سینسر تین سینسر کا مرکب ہے جس میں گائرو اسکوپ (سمت کی پیمائش کرنے والا) ایکسسیلیرومیٹر (رفتار کی پیمائش کرنے والا) میگنیٹو میٹر (میگنیٹک فیلڈ کی طاقت اور سمت کا تعین کرنے والا) شامل ہیں اور یہ سب مل کر پین کی تھری ڈی حرکات کنٹرول کرتے ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ لرن سٹفٹ لکھنے کی تمام حرکات کو شناخت کر سکتا ہے چاہے آپ کاغذ پر لکھیں یا ہوا میں، جب کہ بلٹ ان وائی فائی سے بری تحریر والے افراد اسمارٹ فون، کمپیوٹرز یا نیٹ ورک میں موجود دوسرے پین سے منسلک ہوسکتے ہیں۔


اس پین کے موجد فالک وولسکی کا کہنا ہے کہ یہ پین بنانے کا خیال مجھے اپنے بیٹے کی خراب لکھائی کی وجہ سے آیا، کیوں کہ میری بیوی اس بات سے بہت پریشان تھی اور میں نے اپنے ساتھی ڈینئیل سے اس بات کا ذکر کیا، جس کے بعد ہم دونوں نے مل کر اس پین کی تخلیق پر کام شروع کردیا تھا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر یہ پین تعلیمی مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے، تاہم ہمیں امید ہے کہ ڈسلیکزک (ایسی بیماری جس میں بچوں کو پڑھنے، لکھنے میں مشکل ہوتی ہے کیوں کہ ان کا دماغ الفاظ کو دیر سے شناخت کرتا ہے) میں مبتلا بچوں کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوگا۔
لرن سٹفٹ کو تعلیمی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے برطانیہ کی یونیورسٹی آف شیفلڈ کے پروفیسر گریگ بروکس کا کہنا ہے کہ اس پین کی ایجاد خوش آئند ہے لیکن اس میں بھی پروف ریڈنگ کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔


کائیس میشر کا کہنا ہے ہم رواں سال کے آخر تک اسکولوں میں اس پین (لرن سٹفٹ) کی ٹیسٹنگ شروع کردیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر یہ پین انگریزی اور جرمن زبان کی شناخت کرسکتا ہے۔ تاہم بعد میں طلب کے لحاظ سے اس میں مزید زبانیں بھی شامل کی جائیں گی۔
فالک کا کہنا ہے کہ کہ مستقبل میں ہم ہجے اور تحریر چیک کرنے والی پینسل، فائونٹین پین اور بال پوائنٹ بھی مارکیٹ میں پیش کریں گے، جن کی قیمتیں160سے200ڈالر تک ہوں گی، لیکن فی الحال ابھی تک لرن اسٹفٹ کی قیمت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

Share this post

About Naveed Iqbal

Nulla sagittis convallis arcu. Sed sed nunc. Curabitur consequat. Quisque metus enim venenatis fermentum mollis. Duis vulputate elit in elit. Follow him on Google+.

0 تبصرے:

About-Privacy Policy-Contact us
Copyright © 2013 محمد ابوبکر کا بلاگ. Blogger Template by Bloggertheme9
Proudly Powered by Blogger.
back to top